EN हिंदी
نہ جانے کون ہے دیکھا ہوا سا لگتا ہے | شیح شیری
na jaane kaun hai dekha hua sa lagta hai

غزل

نہ جانے کون ہے دیکھا ہوا سا لگتا ہے

مہر چند کوثر

;

نہ جانے کون ہے دیکھا ہوا سا لگتا ہے
اک اجنبی ہے مگر آشنا سا لگتا ہے

تضاد صورت و سیرت پہ اب یقیں آیا
وہ بے وفا ہے مگر باوفا سا لگتا ہے

گراں نہ گزرا تھا ایسا یہ انتظار کبھی
اب ایک لمحہ بھی صبر آزما سا لگتا ہے

انہیں امید ہو تعمیل کی تو کیوں کر ہو
کہ ان کا حکم ہی کچھ التجا سا لگتا ہے

یہ پھول سادہ و بے رنگ ہی سہی لیکن
تمہارے جوڑے میں کیا خوش نما سا لگتا ہے

وہ بھائی بھائی ہیں رہتے ہیں ایک ہی گھر میں
مگر دیوں میں بڑا فاصلہ سا لگتا ہے

وہ تم وہ میں وہ لب جو وہ رات اور وہ چاند
یہ ایک خواب ہی کتنا بھلا سا لگتا ہے

نہ مجھ میں وصف نہ خوبی نہ کچھ ہنر پھر بھی
تمام شہر مرا ہم نوا سا لگتا ہے

یہ آج شہر میں کیا بات ہو گئی کوثرؔ
جسے بھی دیکھیے سہما ہوا سا لگتا ہے