نہ ہوتے شاد آئین گلستاں دیکھنے والے
فسانہ بھی اگر پڑھ لیتے عنواں دیکھنے والے
ہلاکت خیز ایجادوں پہ دنیا فخر کرتی ہے
کہاں ہیں ارتقائے نوع انساں دیکھنے والے
جو ممکن ہو تم اپنے ہاتھ کی ریکھا کھرچ ڈالو
کہ ہم ہیں تو سہی خواب پریشاں دیکھنے والے
یہ رخنے ہیں یہ در ہیں یہ ترے اجداد کے سر ہیں
ادھر آ کتبۂ دیوار زنداں دیکھنے والے
طلوع آفتاب آگہی کیا خاک دیکھیں گے
حقارت سے مرا چاک گریباں دیکھنے والے
تو پھر کیسی نظر بندی طلسمات تدبر کیا
جو خود کو دیکھ لیں جشن چراغاں دیکھنے والے
شکست ذوق نظارہ مقدر ہی سہی غوثیؔ
انہیں دیکھیں گے پھر بھی تا بہ امکاں دیکھنے والے
غزل
نہ ہوتے شاد آئین گلستاں دیکھنے والے
غوث محمد غوثی