EN हिंदी
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی | شیح شیری
na ho tughyan-e-mushtaqi to main rahta nahin baqi

غزل

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

علامہ اقبال

;

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی

مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی

وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوہ ساقی

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی

خزاں میں بھی کب آ سکتا تھا میں صیاد کی زد میں
مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی

الٹ جائیں گی تدبیریں بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے نہیں میرے تخیل کی ہے خلاقی