نہ آیا آج بھی سب کھیل اپنا مٹی ہے
تمام رات یہ سر اور پلنگ کی پٹی ہے
جبیں پہ قہر نہ تنہا سیاہ پٹی ہے
بھوؤں کی تیغ بھی کافر بڑی ہی کٹی ہے
پھنکی نکلتی ہیں اشکوں کی شیشیاں یارو
ہمارے سینے میں کس شیشہ گر کی بھٹی ہے
گلے لگائیے منہ چومئے سلا رکھئے
ہمارے دل میں بھی کیا کیا ہوس اکھٹی ہے
کوئی حجاب نہیں تجھ میں اور صنم میں نظیرؔ
مگر تو آپ ہی پردہ اور آپی ٹٹی ہے

غزل
نہ آیا آج بھی سب کھیل اپنا مٹی ہے
نظیر اکبرآبادی