مصور اپنے تصور کا ڈھونڈھتا ہے دوام
نہ جام جم نہ وصال صنم نہ شہرت و نام
حیات جبر مسلسل ہے تو ہے جبر شکن
ہر ایک گام پہ آزادگی کا تجھ کو سلام
تصورات کے پھولوں میں رنگ بھرتا ہے
حقیقتوں کی کڑی دھوپ دیتی ہے انعام
سحر بھی ہوگی نسیم سحر بھی گائے گی
مگر یہ رات محبت چراغ زہر کے جام
شراب پی بھی تو پی چشم مست ساقی سے
مگر چڑھائے پیا پے غم حیات کے جام
میں اپنی شمع جلاتا رہا ہوں توبہ پر
میں اپنے شعلے سے ہوتا رہا ہوں گرم کلام
اسی سے میرے رگ و پے میں آتش سیال
اسی سے میرے تصور کے خم میں ماہ تمام

غزل
مصور اپنے تصور کا ڈھونڈھتا ہے دوام
سعید الظفر چغتائی