مسافرت کے تحیر سے کٹ کے کب آئے
جو چوتھی سمت کو نکلے پلٹ کے کب آئے
اب اپنے عکس کو پہچاننا بھی مشکل ہے
ہم اپنے آپ میں حیرت سے ہٹ کے کب آئے
اک انتشار تھا گھر میں بھی گھر سے باہر بھی
سنور کے نکلے تھے کس دن سمٹ کے کب آئے
ہم ایسے خلوتیوں سے مکالمے کو یہ لوگ
جہان بھر کی صداؤں سے اٹ کے کب آئے
یہ گفتگو تو ہے رد عمل تری چپ کا
جو کہہ رہے ہیں یہ ہم گھر سے رٹ کے کب آئے
جب اپنے آپ میں مصروف ہو گیا وہ بہت
ہم اس کی سمت زمانے سے کٹ کے کب آئے
ریاضؔ دھیان ہم آغوش آئنے سے رہا
خیال اس کے تصور سے ہٹ کے کب آئے
غزل
مسافرت کے تحیر سے کٹ کے کب آئے
ریاض مجید