منجمد آخر ہے کیوں تا حد منظر پھیل جا
چار جانب اے مرے خوں کے سمندر پھیل جا
میری آوارہ مزاجی کا رکھا تو نے بھرم
اے غبار دشت آ سینے کے اندر پھیل جا
آ تجھے اپنی نظر سے بھی رکھوں محفوظ میں
شوق سے مجھ میں سما اندر ہی اندر پھیل جا
تذکروں کا اوڑھ جامہ اے مری زندہ دلی
ہر نئے قصبے میں جا بستی میں گھر گھر پھیل جا
آہ و زاری چھوڑ اپنی ذات سے باہر نکل
قہقہے کی گونج بن کر آسماں پر پھیل جا
غزل
منجمد آخر ہے کیوں تا حد منظر پھیل جا
راشد انور راشد