منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں
کیا ظرف ہے غنچوں کا جو اترائے ہوئے ہیں
کہتے ہیں گنو مجھ پہ جو دل آئے ہوئے ہیں
کچھ چھینے ہوئے ہیں مرے کچھ پائے ہوئے ہیں
خنجر پہ نظر ہے کبھی دامن پہ نظر ہے
کون آتا ہے محشر میں وہ گھبرائے ہوئے ہیں
لب پر ہے اگر آہ تو آنکھوں میں ہیں آنسو
بادل یہ بہت دیر سے گرمائے ہوئے ہیں
مے پینے میں کیا ضد تھی کوئی زہر نہیں ہے
ہے تیری قسم شعلہؔ قسم کھائے ہوئے ہیں
غزل
منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں
شعلہؔ علی گڑھ