EN हिंदी
منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں | شیح شیری
munh se tere sau bar ke sharmae hue hain

غزل

منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں

شعلہؔ علی گڑھ

;

منہ سے ترے سو بار کے شرمائے ہوئے ہیں
کیا ظرف ہے غنچوں کا جو اترائے ہوئے ہیں

کہتے ہیں گنو مجھ پہ جو دل آئے ہوئے ہیں
کچھ چھینے ہوئے ہیں مرے کچھ پائے ہوئے ہیں

خنجر پہ نظر ہے کبھی دامن پہ نظر ہے
کون آتا ہے محشر میں وہ گھبرائے ہوئے ہیں

لب پر ہے اگر آہ تو آنکھوں میں ہیں آنسو
بادل یہ بہت دیر سے گرمائے ہوئے ہیں

مے پینے میں کیا ضد تھی کوئی زہر نہیں ہے
ہے تیری قسم شعلہؔ قسم کھائے ہوئے ہیں