منہ سے جو ملائیے کسی کو
کیوں داغ لگائیے کسی کو
آئینۂ کج نما ہیں احباب
صورت نہ دکھائیے کسی کو
جو صورت زخم خون رو دے
ایسا نہ ہنسائیے کسی کو
کچھ خوب نہیں ہے عادت ظلم
ہرگز نہ ستائیے کسی کو
دیوار سے کوئی پھوڑے گا سر
در سے نہ اٹھائیے کسی کو
مشتاق ہے کوئی زیر دیوار
آواز سنائیے کسی کو
مشکل ہے بگاڑ کر بنانا
ہرگز نہ مٹائیے کسی کو
اس فکر میں ہے مرا پری رو
دیوانہ بنائیے کسی کو
ہوتا ہے شعورؔ درد دل میں
پھوڑا یہ دکھائیے کسی کو
غزل
منہ سے جو ملائیے کسی کو
شعور بلگرامی