منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
اس کی محفل میں میں تماشا تھا
ہم جو تجھ سے پھریں خدا سے پھریں
یاد ہے کچھ یہ قول کس کا تھا
وصل میں بھی رہا فراق کا غم
شام ہی سے سحر کا کھٹکا تھا
اپنی آنکھوں کا کچھ قصور نہیں
حسن ہی دل فریب اس کا تھا
فاتحہ پڑھ رہے تھے وہ جب تک
میری تربت پر ایک میلا تھا
نامہ بر نامہ جب دیا تو نے
کچھ زبانی بھی اس نے پوچھا تھا
اب کچھ اس کا بھی اعتبار نہیں
پہلے دل پر بڑا بھروسا تھا
وہ جو رک رک کے پوچھتے تھے حال
دل میں رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
جوٹھا وعدہ بھی اے حفیظؔ ان کا
زندگی کا مری سہارا تھا
غزل
منہ مرا ایک ایک تکتا تھا
حفیظ جونپوری