منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
ترے غم میں یہ سیر بحر و بر ہے
خبر لے دل کی اس سے جس کا گھر ہے
کسی کے گھر کی ہم کو کیا خبر ہے
وہ اب کیوں کر نہ کھینچے آپ کو دور
ہمارے چاہنے کا یہ اثر ہے
ہمیں کچھ وہ نہیں ہیں آہ ورنہ
وہی ہے شام اور وہ ہی سحر ہے
ہمیں دیکھو نہ دیکھو تم ہمیں تو
تمہارا دیکھنا مد نظر ہے
سنا لے مرتے مرتے گل کو بلبل
کوئی نالہ ترے دل میں اگر ہے
اٹھاتا ہے جو روز اٹھ درد و غم کو
کسے طاقت ہے میرا ہی جگر ہے
کبھی بستا تھا اک عالم یہاں بھی
یہ دل جو اب کہ اجڑا سا نگر ہے
کہا چاہے ہے کچھ کہتا ہے کچھ اور
حسنؔ دھیان ان دنوں تیرا کدھر ہے
غزل
منہ اپنا خشک ہے اور چشم تر ہے
میر حسن