منفرد تو ہے ترا کوئی مقابل نہ ہوا
کوئی مخلوق بھی کونین میں کامل نہ ہوا
اک تماشا وہ بھی دیدار کے قابل نہ ہوا
رقص بسمل جو سر کوچۂ قاتل نہ ہوا
دل جو قربانیٔ پروانہ کا حامل نہ ہوا
درخور انجمن شمع شمائل نہ ہوا
کون ہے تیری عنایت کا جو قائل نہ ہوا
کس کے دکھ سکھ میں تو وقت آنے پہ شامل نہ ہوا
جاں بحق ہو گیا تسلیم الگ بات ہے یہ
رہرو عشق یوں آسودۂ منزل نہ ہوا
آنکھ کیا آنکھ نہیں تاب نظارہ جس کو
دل وہ کیا درد محبت کا جو حامل نہ ہوا
روز اول سے ہیں سرگرم تلاش محبوب
ہم سا کوئی مگر آوارۂ منزل نہ ہوا
خودکشی شدت ایذائے وفا میں توبہ
بزدلی کہیے اسے یہ حل مشکل نہ ہوا
ایسا لگتا ہے اسیران قفس چھوٹ گئے
آج ہر دن کی طرح شور سلاسل نہ ہوا
جز دل اہل سخن لحن میں ڈھل کر الہام
دہر میں ہر کس و ناکس پہ تو نازل نہ ہوا
کروٹیں لیں تو بہت حسن کی رعنائی نے
عشق کا رنگ پہ ماہرؔ کبھی زائل نہ ہوا

غزل
منفرد تو ہے ترا کوئی مقابل نہ ہوا
ماہر بلگرامی