مختصر سی زندگی میں کتنی نادانی کرے
ان نظاروں کو کوئی دیکھے کہ حیرانی کرے
دھوپ میں ان آبگینوں کو لیے پھرتا ہوں میں
کوئی سایہ میرے خوابوں کی نگہبانی کرے
ایک میں ہوں اور دستک کتنے دروازوں پہ دوں
کتنی دہلیزوں پہ سجدہ ایک پیشانی کرے
رات ایسی چاہیئے مانگے جو دن بھر کا حساب
خواب ایسا ہو جو ان آنکھوں میں ویرانی کرے
ساحلوں پر میں کھڑا ہوں تشنہ کاموں کی طرح
کوئی موج آب میری آنکھ کو پانی کرے
غزل
مختصر سی زندگی میں کتنی نادانی کرے
مہتاب حیدر نقوی