EN हिंदी
مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے | شیح شیری
muKhaalif hai saba-e-nama-bar kuchh aur kahti hai

غزل

مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے

مضطر خیرآبادی

;

مخالف ہے صبائے نامہ بر کچھ اور کہتی ہے
ادھر کچھ اور کہتی ہے ادھر کچھ اور کہتی ہے

نہ تو دشمن کے گھر سویا نہ تو دشمن کے گھر جاگا
یہ سب سچ ہے تری صورت مگر کچھ اور کہتی ہے

ادھر مد نظر ان کو چھپانا راز الفت کا
ادھر کمبخت میری چشم تر کچھ اور کہتی ہے

تصور دل میں شاید آ گیا ہے گھر کے جانے کا
یہ انگڑائی تری وقت سحر کچھ اور کہتی ہے

نہیں معلوم مضطرؔ مر گیا یا سانس باقی ہے
الٰہی خیر شکل چارہ گر کچھ اور کہتی ہے