EN हिंदी
مجھے کل اچانک خیال آ گیا آسماں کھو نہ جائے | شیح شیری
mujhe kal achanak KHayal aa gaya aasman kho na jae

غزل

مجھے کل اچانک خیال آ گیا آسماں کھو نہ جائے

عزم بہزاد

;

مجھے کل اچانک خیال آ گیا آسماں کھو نہ جائے
سمندر کو سر کرتے کرتے کہیں بادباں کھو نہ جائے

کوئی نا مرادی کی یلغار سینے کو چھلنی نہ کر دے
کہیں دشت انفاس میں صبر کا کارواں کھو نہ جائے

یہ ہنستا ہوا شور سنجیدگی کے لیے امتحاں ہے
سو محتاط رہنا کہ تہذیب آہ و فغاں کھو نہ جائے

اسے وقت کا جبر کہیے کہ بیچارگی جسم و جاں کی
مکاں کھونے والوں کو ڈر ہے کہ اب لا مکاں کھو نہ جائے

میں اپنے ارادوں کی گٹھری اٹھائے کہیں جا نہ پایا
ہمیشہ یہ دھڑکا رہا محفل دوستاں کھو نہ جائے

یہ قصوں کی رم جھم میں بھیگا ہوا حلقۂ گفتگو ہے
یہاں چپ ہی رہنا کہ تاثیر لفظ و بیاں کھو نہ جائے

یہاں کس کو فرصت کہ آغاز و انجام کو یاد رکھے
سبھی کو یہ تشویش ہے وقت کا درمیاں کھو نہ جائے

یہ بازار نفع و ضرر ہے یہاں بے-توازن نہ ہونا
سمیٹو اگر سود تو دھیان رکھنا زیاں کھو نہ جائے

اٹھو عزمؔ اس آتش شوق کو سرد ہونے سے روکو
اگر رک نہ پائے تو کوشش یہ کرنا دھواں کھو نہ جائے