مجھے ایسا لطف عطا کیا کہ جو ہجر تھا نہ وصال تھا
مرے موسموں کے مزاج داں تجھے میرا کتنا خیال تھا
کسی اور چہرے کو دیکھ کر تری شکل ذہن میں آ گئی
ترا نام لے کے ملا اسے میرے حافظے کا یہ حال تھا
کبھی موسموں کے سراب میں کبھی بام و در کے عذاب میں
وہاں عمر ہم نے گزار دی جہاں سانس لینا محال تھا
کبھی تو نے غور نہیں کیا کہ یہ لوگ کیسے اجڑ گئے
کوئی میرؔ جیسا گرفتہ دل تیرے سامنے کی مثال تھا
ترے بعد کوئی نہیں ملا جو یہ حال دیکھ کے پوچھتا
مجھے کس کی آگ جلا گئی مرے دل کو کس کا ملال تھا
کہیں خون دل سے لکھا تو تھا ترے سال ہجر کا سانحہ
وہ ادھوری ڈائری کھو گئی وہ نہ جانے کون سا سال تھا
غزل
مجھے ایسا لطف عطا کیا کہ جو ہجر تھا نہ وصال تھا
اعتبار ساجد