EN हिंदी
مجھ کو تو گر کے مرنا ہے | شیح شیری
mujhko to gir ke marna hai

غزل

مجھ کو تو گر کے مرنا ہے

جون ایلیا

;

مجھ کو تو گر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے

شہر ہے چہروں کی تمثیل
سب کا رنگ اترنا ہے

وقت ہے وہ ناٹک جس میں
سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے

میرے نقش ثانی کو
مجھ میں ہی سے ابھرنا ہے

کیسی تلافی کیا تدبیر
کرنا ہے اور بھرنا ہے

جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے

اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے

ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے

چاہے ہم کچھ بھی کر لیں
ہم ایسوں کو سدھرنا ہے

ہم تم ہیں اک لمحہ کے
پھر بھی وعدہ کرنا ہے