مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا
تجھ کو منظور اگر ہو تو بھلا ہی دینا
اے غم ہجر وہ تہمت جو لگائے مجھ پر
میری بے لوث محبت کی گواہی دینا
یہ الگ بات کہ ہو جاؤں محبت میں تباہ
تو نہ مجھ کو کبھی احساس تباہی دینا
وہ جو مجبور کریں شرح غم فرقت کو
اشک آمیز نگاہوں سے سنا ہی دینا
ان کے دامن کو مہ و مہر سے کرنا معمور
میرے حصے میں جہاں بھر کی سیاہی دینا
وہ جواں کے کہیں فتنۂ دوراں نہ بنے
حسن کو فطرت معشوق نگاہی دینا
آج بھی یاد ہے اے دوست عنایت تیری
وہ ترا اتنا ہنسانا کہ رلا ہی دینا
میرے ہر شعر میں روداد ستم ہے ان کی
اے ظفرؔ میری غزل ان کو سنا ہی دینا

غزل
مجھ کو تا عمر تڑپنے کی سزا ہی دینا
ظفر انصاری ظفر