مجھ کو کہاں یہ ہوش تری جلوہ گاہ میں
جلوے میں ہے نگاہ کہ جلوہ نگاہ میں
وہ کیا نگاہ جو نہ کسی دل میں گھر کرے
وہ دل ہی کیا نہ ہو جو کسی کی نگاہ میں
مجھ کو زمانے بھر کے غموں سے نجات ہے
جب سے ہے میرا دل ترے غم کی پناہ میں
پہلے گناہ گار تماشا ہوئی نگاہ
لذت شریک پھر ہوا دل اس گناہ میں
نسبت ہی کیا ثواب کو میرے گناہ سے
سو سو ثواب ہیں مرے اک اک گناہ میں
تیرے جمال ناز کا حسن کمال ہے
خود جلوہ بن گیا ہوں تری جلوہ گاہ میں
آباد ہے جہان وفا ان کی یاد سے
برباد ہو گئے جو محبت کی راہ میں
اٹھتی نہیں نگاہ کسی سمت اے سحابؔ
کس حسن بے بدل کے ہیں جلوے نگاہ میں

غزل
مجھ کو کہاں یہ ہوش تری جلوہ گاہ میں
شیو دیال سحاب