مدتوں سے جو معطر تھا وہ دفتر کاٹ کر
زرد موسم لکھ دیا سطر گل تر کاٹ کر
دیدۂ بینا کی خاطر تھا جو سامان نشاط
ریزہ ریزہ کر دیا کس نے وہ منظر کاٹ کر
کوئی کھڑکی ہی نظر آئی نہ دروازہ ملا
تھک گئے ہیں پاؤں دیواروں کے چکر کاٹ کر
دامن شب میں ہیں کتنے پھول کیا اس کو خبر
سو گیا کوہ مشقت کو جو دن بھر کاٹ کر
کھو گیا ہے آدمی بے چہرگی کے دشت میں
لے اڑا ہے وقت آئینوں کے جوہر کاٹ کر
یوں کیا آزاد زنجیر تعلق سے مجھے
چھوڑ دے جیسے کوئی طوطے کے شہ پر کاٹ کر
چاہتے ہیں سب کو بے محنت ملے شیریں ہمیں
کون اب لائے گا جوئے شیریں پتھر کاٹ کر
تب کہیں پایا کسی نے اس کی منزل کا پتہ
جب مسافت قطع کی خود کو سراسر کاٹ کر
تیرگی میں تھا جو ماہرؔ شمع روشن کی مثال
خاک پر پھینکا ہے کس ظالم نے وہ سر کاٹ کر
غزل
مدتوں سے جو معطر تھا وہ دفتر کاٹ کر
ماہر عبدالحی

