EN हिंदी
مدت ہوئی خموشیٔ اظہار حال کو | شیح شیری
muddat hui KHamoshi-e-izhaar-e-haal ko

غزل

مدت ہوئی خموشیٔ اظہار حال کو

رفیق خاور جسکانی

;

مدت ہوئی خموشیٔ اظہار حال کو
آب صدا ہی دیجئے دشت خیال کو

پھر ایک شاخ زرد گری خاک ہو گئی
پھر برگ‌ نو ملے شجر ماہ و سال کو

جھونکا یہ کس کے لمس گریزاں کی طرح تھا
اب حل ہی کرتے رہئے ہوا کے سوال کو

ہم‌ رنگ ماہتاب تھا وہ اس میں کھو گیا
اب کتنی دور پھینکیے نظروں کے جال کو

شب بھر ہوا کے رنگ بدلتے رہے نئے
میں دیکھتا رہا سفر بر‌ شگال کو

جائے گا خون شب نہ کسی طور رائیگاں
منہ پر ملے گی صبح شفق کے گلال کو

جچتے نہیں نگاہ میں خوشیوں کے آفتاب
دل ڈھونڈھتا ہے کس غم زہرہ جمال کو

انسانیت کے درد کی آواز بن سکے
سوز نوا سے سینچئے زخم خیال کو

دیجے پھر آب‌ دیدۂ تر سے حیات نو
فن و ادب کے سبزۂ نو پائمال کو