موم صفت لوگوں نے میرا ہنس کے تماشہ دیکھا تو
وہ پتھر تھا لیکن اوس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا تو
الفاظوں نے معنی بدلے تحریروں نے رخ بدلا
میرے قلم کی نوک سے جس دم خون کا چشمہ پھوٹا تو
کہنے لگے سب آج سوا نیزے پر سورج آئے گا
جس دن میں نے موم کا کرتا اپنے بدن پر پہنا تو
قیمت دیکھتے دیکھتے پہنچی کوڑی سے پھر لاکھوں میں
کانچ کا اک شوکیس بنا کر خود کو اوس میں رکھا تو
اونچی اونچی باتیں دینا میری بھی کل فطرت تھی
ہوش ٹھکانے آ گئے میرے اپنے اندر جھانکا تو
مجھ کو پنجرے سے تو نکالا پر صیاد نے دھمکی دی
بازو جھڑ جائیں گے تیرے تو نے اڑنا چاہا تو
غزل
موم صفت لوگوں نے میرا ہنس کے تماشہ دیکھا تو
نواز عصیمی