مہر بہ لب ہے کس لیے، کس لیے بولتا نہیں
اے دل بے طلب! بتا کیا کوئی مدعا نہیں
اہل جنوں کو اب کے بھی اذن جنوں ملا نہیں
اب کے برس بھی باغ میں پھول کوئی کھلا نہیں
اپنا قصور ہے تو یہ، اور کوئی خطا نہیں
ہم نے فقیہ شہر کو مانا کبھی خدا نہیں
یہ تو ہوا کہ روشنی اور بھی کچھ بھڑک اٹھی
تیز ہوا کے باوجود دل کا دیا بجھا نہیں
راہ طلب میں آج تک اہل طلب کا قافلہ
یوں ہی رواں دواں رہا اور کبھی تھکا نہیں
کس سے طلب کریں بھلا خون کا اپنے خوں بہا
اپنے علاوہ اور کوئی اپنا حریف تھا نہیں
دل کا عجیب رنگ ہے اور وہ شخص سنگ ہے
تا بہ نگاہ دور تک جس کا کوئی پتا نہیں
غزل
مہر بہ لب ہے کس لیے، کس لیے بولتا نہیں
نکہت بریلوی