مزاج حسن میں یا رب تو پیار پیدا کر
نہیں تو پھر مرے دل میں قرار پیدا کر
بڑھا نہ دست طلب نذر ناز دل کر کے
نگاہ حسن میں اپنا وقار پیدا کر
بدل دے کوشش پیہم سے آب و گل کا مزاج
خزاں نہ آئے جسے وہ بہار پیدا کر
فلک پہ چڑھ کے نظر آئے کچھ جھلک جس کی
وہ آرزو دل امیدوار پیدا کر
یہ بے بسی تو نہیں تیری شان انسانی
تو آدمی ہے تو خود اختیار پیدا کر
ترے عمل سے ہو سارا جہان حیرت میں
زمین شور میں بھی لالہ زار پیدا کر
دیار غم کو مٹا کر بسا جہان خوشی
نئی فضا نئے لیل و نہار پیدا کر
جو چاہتا ہے ظفرؔ التفات دوست ادھر
تو دل میں جذبۂ بے اختیار پیدا کر

غزل
مزاج حسن میں یا رب تو پیار پیدا کر
سید محمد ظفر اشک سنبھلی