مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
دیوار و در مانگ رہا ہوں میں بھی بہتے پانی سے
بے خبری میں ہونٹ دیے کی لو کو چومنے والے تھے
وہ تو اچانک پھوٹ پڑی تھی خوشبو رات کی رانی سے
وہ مجبوری موت ہے جس میں کاسے کو بنیاد ملے
پیاس کی شدت جب بڑھتی ہے ڈر لگتا ہے پانی سے
دنیا والوں کے منصوبے میری سمجھ میں آئے نہیں
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں اب گھر کی ویرانی سے
جیسے تیرے دروازے تک دستک دینے پہنچے تھے
اپنے گھر بھی لوٹ کے آتے ہم اتنی آسانی سے
ہم کو سب معلوم ہے محسنؔ حال پس گرداب ہے کیا
آنکھ نے سچے گر سیکھے ہیں سورج کی دربانی سے
غزل
مٹی ہو کر عشق کیا ہے اک دریا کی روانی سے
محسن اسرار