مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے
یہ رنگ اک خواب کے لیے ہے یہ آگ اک شہر کے لیے ہے
اگر اسی رات کی سیاہی کے ساتھ کھو جائیں گے ستارے
تو پھر یہ میرے لہو کا روشن چراغ کس لہر کے لیے ہے
طلوع امکان آرزو پر یقین رکھتی ہے ایک دنیا
مگر یہ بے کار خواہشوں کی نمود اک زہر کے لیے ہے
کنار دریا ہے ایک مدھم غبار کس دشت کا پڑاؤ
درون صحرا یہ آب حیواں کا نقش کس نہر کے لیے ہے
یہ خواب ہوتے ہوئے صحیفوں کے پھول میرے لیے ہیں لیکن
زمین دل پر یہ آیتوں کا نزول اک دہر کے لیے ہے
بس ایک انسان کی خوشی ہے کسی حقیقت کی رونمائی
مگر کسی خواب کے زیاں کا ملال اک شہر کے لیے ہے
اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا
تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے
غزل
مری وراثت میں جو بھی کچھ ہے وہ سب اسی دہر کے لیے ہے
غلام حسین ساجد