EN हिंदी
مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے | شیح شیری
meri shanaKHt ke har naqsh ko miTata hai

غزل

مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے

رشیدالظفر

;

مری شناخت کے ہر نقش کو مٹاتا ہے
وہ میرے سائے کو مجھ سے جدا دکھاتا ہے

بس ایک پل میں مٹا دیں گی سرپھری موجیں
گھروندے ریت کے ساحل پہ کیوں بناتا ہے

فضا میں کمرے کی پھیلی ہوئی ہے اک خوشبو
یہ کون آ کے کتابیں مری سجاتا ہے

یہی ملا ہے صلہ مجھ کو حق پرستی کا
کہ وقت نیزے پہ سر کو مرے اٹھاتا ہے

میں اس کے عشق میں ایسے مقام پر ہوں جہاں
اسی کا عکس ہر اک آئنہ دکھاتا ہے