مری نگاہ میں یہ رنگ سوز و ساز نہ ہو
ترے کرم کا اگر سلسلہ دراز نہ ہو
امید چشم تغافل شعار سے کب تھی
اس التفات فراواں میں کوئی راز نہ ہو
ہمارے حال پریشاں پہ اک نظر بھی نہیں
نیاز مند سے اتنا تو بے نیاز نہ ہو
کسی نے توڑ دیئے بربط حیات کے تار
اب اور کیا ہو اگر آہ جاں گداز نہ ہو
نظر نہ آئے کہیں یہ بہار کا عالم
اگر تصور روئے چمن طراز نہ ہو
چلا تو ہے مگر اے رہرو رہ عرفاں
حقیقتوں کی بھی منزل کہیں مجاز نہ ہو
جو اس کے حسن کی پرچھائیاں نہ آئیں نظر
تو روح گرم طواف حریم ناز نہ ہو
ہے ایک فتنۂ بیدار حسن خوابیدہ
سنبھل کہ گھات میں وہ چشم نیم باز نہ ہو
شب فراق نہ کاٹے کٹے کبھی مضطرؔ
خیال دوست اگر غم میں دل نواز نہ ہو
غزل
مری نگاہ میں یہ رنگ سوز و ساز نہ ہو
رام کرشن مضطر