مری جاں سرسری ملنے سے کیا معلوم ہوتا ہے
پرکھنے سے بشر کھوٹا کھرا معلوم ہوتا ہے
تمہارے دل میں اور میرا تصور ہو نہیں سکتا
تمہارے دل میں کوئی دوسرا معلوم ہوتا ہے
ترے قدموں سے یہ ویرانہ جنت ہو گیا گویا
مجھے دنیا سے اپنا گھر جدا معلوم ہوتا ہے
مجھے تم بے وفا کہتے ہو اچھا بے وفا ہوں میں
مگر یہ مدعی کا مدعا معلوم ہوتا ہے
تمہارے دل میں جو کچھ آئے پنہاں رہ نہیں سکتا
تمہارا دل تو کوئی آئینہ معلوم ہوتا ہے
عدل کی شکل سے ظاہر اس کا دل شکستہ ہے
چمن میں اور کوئی گل کھلا معلوم ہوتا ہے
فقیروں کی صدا سن کر مرے دھوکے میں کہتے ہیں
سکھا معلوم ہوتا ہے سخاؔ معلوم ہوتا ہے

غزل
مری جاں سرسری ملنے سے کیا معلوم ہوتا ہے
سید نظیر حسن سخا دہلوی