مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا
مجھے وہ بازوؤں میں لے گا اور پایاب کر دے گا
عجب انداز ہے اس گل بدن کے پیار کرنے کا
مجھے پاتال تک لے جا کے محو خواب کر دے گا
وہ جب چاہے جسے چاہے غرور آشنائی دے
نظر بھر کر جسے دیکھے گا وہ سرخاب کر دے گا
سنا ہے گل کی رعنائی رہے گی جوں کی توں لیکن
جو سیلاب آئے گا خوشبو کو زیر آب کر دے گا
شناورؔ قطرہ قطرہ بہتی آنکھوں کا بھی کچھ سوچو!
یہ ایسا روگ ہے مٹی تری بے آب کر دے گا

غزل
مری گہرائیاں پل بھر میں وہ نایاب کر دے گا
شناور اسحاق