مری فغاں میں اثر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
ادھر کسی کی نظر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
کوئی ملے گا یہ کیا ہم کہیں یقین کے ساتھ
پرائے دل کی خبر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
ملا تھا حسن تو رہنا تھا دور دور اسے
وہ رشک شمس و قمر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
امید و بیم میں الفت نے ہم کو ڈال دیا
علاج درد جگر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
کرم کے ساتھ ستم تھا جفا کے ساتھ وفا
نظر میں ان کی نظر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
مرے خیال میں آؤ مری نظر میں پھرو
یہ اک طرح کا سفر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
جو پوچھتا ہوں تو اختر شناس کہتے ہیں
کہ شام غم کی سحر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
جناب نوحؔ یہ کیا بار بار کہتے ہیں
وہ جوش دیدۂ تر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
غزل
مری فغاں میں اثر ہے بھی اور ہے بھی نہیں
نوح ناروی