مری بے خودی ہے وہ بے خودی کہ خودی کا وہم و گماں نہیں
یہ سرور ساغر مے نہیں یہ خمار خواب گراں نہیں
جو ظہور عالم ذات ہے یہ فقط ہجوم صفات ہے
ہے جہاں کا اور وجود کیا جو طلسم وہم و گماں نہیں
یہ حیات عالم خواب ہے نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے
وہی کفر و دیں میں خراب ہے جسے علم راز جہاں نہیں
نہ وہ خم میں بادے کا جوش ہے نہ وہ حسن جلوہ فروش ہے
نہ کسی کو رات کا ہوش ہے وہ سحر کہ شب کا گماں نہیں
وہ زمیں پہ جن کا تھا دبدبہ کہ بلند عرش پہ نام تھا
انہیں یوں فلک نے مٹا دیا کہ مزار تک کا نشاں نہیں
غزل
مری بے خودی ہے وہ بے خودی کہ خودی کا وہم و گماں نہیں
چکبست برج نرائن