EN हिंदी
مری آہ و فغاں سے بے سماعت ہو گئے ہو کیا | شیح شیری
meri aah-o-fughan se be-samaat ho gae ho kya

غزل

مری آہ و فغاں سے بے سماعت ہو گئے ہو کیا

ضیا فاروقی

;

مری آہ و فغاں سے بے سماعت ہو گئے ہو کیا
ابھی تو ابتدا کی ہے ابھی سے سو گئے ہو کیا

بھرے بازار میں تنہائیوں کو ڈھونڈنے والو
مرے ذوق جنوں میں تم بھی شامل ہو گئے ہو کیا

وہ گل جس کے لئے یہ آسماں موسم بدلتا ہے
اسی کا بیج میری خاک جاں میں بو گئے ہو کیا

کوئی آواز کیوں دیتے نہیں سانسوں کے مرکز سے
کہ تم بھی زندگی کے پیچ و خم میں کھو گئے ہو کیا

کبھی جھانکا ہے تم نے ڈوبتے سورج کی آنکھوں میں
کبھی تم جھیل کے اس پار بھی یارو گئے ہو کیا

یہ بے خوابی کا عالم اور ہر آہٹ پہ چونک اٹھنا
دریچہ کیوں کھلا رکھتے ہو پاگل ہو گئے ہو کیا

وہ جس پر خیمہ زن تھے قافلے لیلہ پرستوں کے
کبھی اس راستے پر بھی بتاؤ تو گئے ہو کیا

زمانے کو کبھی تصویر حیرت بن کے دیکھا ہے
کبھی بے سمت راہوں پر بھی درویشوں گئے ہو کیا

زمانے کو کبھی تصویر حیرت بن کے دیکھا ہے
کبھی بے سمت راہوں پر بھی درویشوں گئے ہو کیا

سناؤ گے کہاں تک داستان خیر و شر اپنی
ضیاؔ اس دشت جاں میں بن کے قصہ گو گئے ہو کیا