مرے خدا کسی صورت اسے ملا مجھ سے
مرے وجود کا حصہ نہ رکھ جدا مجھ سے
وہ ناسمجھ مجھے پتھر سمجھ کے چھوڑ گیا
وہ چاہتا تو ستارے تراشتا مجھ سے
اس ایک خط نے سخنور بنا دیا مجھ کو
وہ ایک خط کہ جو لکھا نہیں گیا مجھ سے
اسے ہی ساتھ گوارا نہ تھا مرا ورنہ
کسے مجال کوئی اس کو چھینتا مجھ سے
ابھی وصال کے زخموں سے خون رستا ہے
ابھی خفا ہے محبت کا دیوتا مجھ سے
ہے آرزو کہ پلٹ جاؤں آسماں کی طرف
مزاج اہل زمیں کا نہیں ملا مجھ سے
خطا کے بعد عجب کشمکش رہی شاہدؔ
خطا سے میں رہا شرمندہ اور خطا مجھ سے
غزل
مرے خدا کسی صورت اسے ملا مجھ سے
شاہد ذکی