EN हिंदी
مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے | شیح شیری
mere dil mein hijr ke bab hain tujhe ab talak wahi naz hai

غزل

مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے

ولی اللہ محب

;

مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے
جو یہ جی ہی لینے پہ ہے نظر تو قبول ہو یہ نماز ہے

یہی کھوج لینے کے واسطے پھروں ہوں میں ساتھ نسیم کے
کہ چمن میں کوئی ہے گل کہیں تری بو سے محرم راز ہے

کوئی اور قصہ شروع کر جو تمام کہہ سکے ہم نفس
کہ فسانہ زلف سیاہ کا شب ہجر سے بھی دراز ہے

ہوئی دل میں جب سے ہے شعلہ زن مری آتش عشق کی ہر نفس
جو پتنگ و شمع میں دیکھیے نہ وہ سوز ہے نہ گداز ہے

بخدا کہ مدت عشق میں یہی بات فرض ہے ناصحا
کہ صنم کے نقش قدم سوا نہیں سجدہ گاہ نماز ہے

نہ برابر اس کو بھی زاہدو گنو اپنے کعبے کی راہ کے
رہ عشق میں جو قدم رکھو تو بہت نشیب و فراز ہے

کوئی شغل اس سے نہیں بھلا کہ محبؔ ہو عشق میں مبتلا
اسی راہ حق کا بنے رہنما یہی عشق اگرچہ مجاز ہے