مرے بدن میں لہو کا کٹاؤ ایسا تھا
کہ میرا ہر بن مو ایک گھاؤ ایسا تھا
بچھڑتے وقت عجب الجھنوں میں ڈال گیا
وہ ایک شخص کہ سیدھے سبھاؤ ایسا تھا
چلی جو بات کوئی رات کے تعاقب میں
تو بات بات سے نکلی بہاؤ ایسا تھا
میں پورا پورا روانہ تھا ابجدوں کی طرف
حساب عمر ترا چل چلاؤ ایسا تھا
گل نشاط کی خوشبو بھی بار تھی مجھ کو
مرے مزاج میں غم کا رچاؤ ایسا تھا
کنار لب میں نہ رہتی تھی موج گویائی
طبیعتوں میں سخن کا بہاؤ ایسا تھا
ٹھہرتا کیا مری خاکستری نگاہوں میں
ترا وجود تو روشن الاؤ ایسا تھا
نکل سکی نہ کوئی بھی فرار کی صورت
سپاہ زیست کا مجھ پر پڑاؤ ایسا تھا
نہ چاہ کر بھی اسے دل سے چاہتے تھے ہم
کسی کی لاگ میں تابشؔ لگاؤ ایسا تھا
غزل
مرے بدن میں لہو کا کٹاؤ ایسا تھا
عباس تابش