مرا قلم مرے جذبات مانگنے والے
مجھے نہ مانگ مرا ہاتھ مانگنے والے
یہ لوگ کیسے اچانک امیر بن بیٹھے
یہ سب تھے بھیک مرے ساتھ مانگنے والے
تمام گاؤں ترے بھولپن پہ ہنستا ہے
دھوئیں کے ابر سے برسات مانگنے والے
نہیں ہے سہل اسے کاٹ لینا آنکھوں میں
کچھ اور مانگ مری رات مانگنے والے
کبھی بسنت میں پیاسی جڑوں کی چیخ بھی سن
لٹے شجر سے ہرے پات مانگنے والے
تو اپنے دشت میں پیاسا مرے تو بہتر ہے
سمندروں سے عنایات مانگنے والے
غزل
مرا قلم مرے جذبات مانگنے والے
ظفر گورکھپوری