مرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوز دل کو ہوا نہ دے
بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے
یہ جو زخم دل کو پکائے ہم لئے پھر رہے ہیں چھپائے ہم
کوئی نا شناس مزاج غم کہیں ہاتھ اس کو لگا نہ دے
تو جہاں سے آج ہے نکتہ چیں کبھی مدتوں میں رہا وہیں
میں گدائے راہ گزر نہیں مجھے دور ہی سے صدا نہ دے
تب و تاب عشق کا ہے کرم کہ جمی ہے محفل چشم نم
ذرا دیکھیو اے ہوائے غم یہ چراغ کوئی بجھا نہ دے
وہ جو شاعری کا سبب ہوا وہ معاملہ بھی عجب ہوا
میں غزل سناؤں ہوں اس لئے کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے
غزل
مرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوز دل کو ہوا نہ دے
کلیم عاجز