EN हिंदी
مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو | شیح شیری
mera dil dekho ab ya mere dushman ka jigar dekho

غزل

مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو

نوح ناروی

;

مرا دل دیکھو اب یا میرے دشمن کا جگر دیکھو
تمہارے بس میں آنکھیں ہیں جدھر جاؤ ادھر دیکھو

قیامت میں نہ میرے منہ سے پھر فریاد نکلے گی
اگر یہ کہہ دیا اس نے یہاں آؤ ادھر دیکھو

تمہارے نام پر مر مٹنے والا کون ہے میں ہوں
اگر سوچو اگر سمجھو اگر مانو اگر دیکھو

مرے دل کو چرا کر پھر چراؤ آنکھ کیا معنی
نگاہ قہر ہی سے تم مجھے دیکھو مگر دیکھو

جو کہتا ہوں فنا کے بعد سب کو چین ملتا ہے
تو وہ کہتے ہیں پھر اب دیر کیا تم بھی مر دیکھو

رقیبوں کو تم آنکھیں تو دکھاتے ہو سر محفل
کہیں ایسا نہ ہو بن جائے میری جان پر دیکھو

کسی کو دیکھ کر اے نوحؔ کیسی کچھ بنی دل پر
یہ کس کمبخت نے تم سے کہا تھا تم ادھر دیکھو