EN हिंदी
تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا | شیح شیری
tegh-e-sitam se uski mera sar juda hua

غزل

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا

میر تقی میر

;

تیغ ستم سے اس کی مرا سر جدا ہوا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا

قاصد کو دے کے خط نہیں کچھ بھیجنا ضرور
جاتا ہے اب تو جی ہی ہمارا چلا ہوا

وہ تو نہیں کہ اشک تھمے ہی نہ آنکھ سے
نکلے ہے کوئی لخت دل اب سو جلا ہوا

حیران رنگ باغ جہاں تھا بہت رکا
تصویر کی کلی کی طرح دل نہ وا ہوا

عالم کی بے فضائی سے تنگ آ گئے تھے ہم
جاگا سے دل گیا جو ہمارا بجا ہوا

در پے ہمارے جی کے ہوا غیر کے لیے
انجام کار مدعی کا مدعا ہوا

اس کے گئے پہ دل کی خرابی نہ پوچھیے
جیسے کسو کا کوئی نگر ہو لٹا ہوا

بد تر ہے زیست مرگ سے ہجران یار میں
بیمار دل بھلا نہ ہوا تو بھلا ہوا

کہتا تھا میرؔ حال تو جب تک تو تھا بھلا
کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا