EN हिंदी
ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور | شیح شیری
milti hai nazar un se to kho jate hain hum aur

غزل

ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور

مغیث الدین فریدی

;

ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور
منزل کے قریب آ کے بہکتے ہیں قدم اور

مارے ہوئے ہیں کشمکش وہم و یقیں کے
ٹوٹے ہوئے ہر بت سے تراشے ہیں صنم اور

یہ بات سمجھتے ہی نہیں حضرت ناصح
سلتا ہے اگر چاک تو کھلتا ہے بھرم اور

تدبیر کا ہر نقش دل آویز ہے لیکن
ہے کاتب تقدیر کا انداز رقم اور

جذبات پہ مہریں نہ لگی ہیں نہ لگیں گی
ہوتی ہے زباں بند تو چلتا ہے قلم اور

شاید یہ صلہ ترک طلب کا ہے فریدیؔ
بڑھتی ہی گئی وسعت دامان کرم اور