ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور
منزل کے قریب آ کے بہکتے ہیں قدم اور
مارے ہوئے ہیں کشمکش وہم و یقیں کے
ٹوٹے ہوئے ہر بت سے تراشے ہیں صنم اور
یہ بات سمجھتے ہی نہیں حضرت ناصح
سلتا ہے اگر چاک تو کھلتا ہے بھرم اور
تدبیر کا ہر نقش دل آویز ہے لیکن
ہے کاتب تقدیر کا انداز رقم اور
جذبات پہ مہریں نہ لگی ہیں نہ لگیں گی
ہوتی ہے زباں بند تو چلتا ہے قلم اور
شاید یہ صلہ ترک طلب کا ہے فریدیؔ
بڑھتی ہی گئی وسعت دامان کرم اور
غزل
ملتی ہے نظر ان سے تو کھو جاتے ہیں ہم اور
مغیث الدین فریدی