EN हिंदी
ملا ہے تپتا صحرا دیکھنے کو | شیح شیری
mila hai tapta sahra dekhne ko

غزل

ملا ہے تپتا صحرا دیکھنے کو

یزدانی جالندھری

;

ملا ہے تپتا صحرا دیکھنے کو
چلے تھے گھر سے دریا دیکھنے کو

چلو اپنا ہی منظر آپ دیکھیں
کہاں جائیں تماشا دیکھنے کو

سر مقتل کسے لایا گیا ہے
چلی آتی ہے دنیا دیکھنے کو

فسردہ پھول اڑتے زرد پتے
چمن میں رہ گیا کیا دیکھنے کو

ملی ہے مختصر سی فرصت دید
تماشا گاہ دنیا دیکھنے کو

چراغ رہ گزر جگنو ستارا
کرن کوئی تو رستا دیکھنے کو

پھرے ہیں انجمن در انجمن ہم
اسے جلوہ بہ جلوہ دیکھنے کو