میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے
شمع تاباں نہ سہی جلتا ہوا دل تو ہوئے
نہ سہی خاک کے پتلوں میں صفات ملکی
بارے اس بار وفا کے متحمل تو ہوئے
حوصلے دل کے محبت میں جو پستے ہی رہے
کر کے ہمت ترے غمزوں کے مقابل تو ہوئے
پرشس غم زدگاں بہر تفنن ہی سہی
خیر سے آپ بھی اس بزم میں شامل تو ہوئے
بے اثر آہ سے بھی اتنی تسلی ہے ضرور
منہ تکا کرتے تھے جو وہ کسی قابل تو ہوئے
آن رکھ لی تری شمشیر ادا کی یوں بھی
جن کو مرنا نہیں آتا تھا وہ بسمل تو ہوئے
سند صبر سہی پاک دلوں کے ناسور
ایسے مقتول بھی اک طرح کے قاتل تو ہوئے
رشک دشمن کی تلافی کو یہ پہلو نہیں کم
غم جانکاہ محبت کے وہ قاتل تو ہوئے
خود سے دکھ مول لیں یہ کام کچھ آسان نہ تھا
کھا کے اک چوٹ مزے درد کے حاصل تو ہوئے
خود کشی میں تو خلل آرزوؔ آیا لیکن
ہاتھ ان کے مری گردن میں حمائل تو ہوئے
غزل
میر محفل نہ ہوئے گرمئ محفل تو ہوئے
آرزو لکھنوی