میری ایذا میں خوشی جب آپ کی پاتے ہیں لوگ
تو مجھے کس کس طرح سے آ کے دھمکاتے ہیں لوگ
ہاتھ کیا آتا ہے ان کے کچھ نہیں معلوم کیوں
مجھ کو تم سے اور تم کو مجھ سے چھڑوانے ہیں لوگ
ایک تو کچھ جی ہی جی میں رک رہے ہیں مجھ سے وہ
دوسرے جا جا کے ان کو اور بھڑکاتے ہیں لوگ
میرے ان کے صلح از بس خلق کو ہے ناگوار
وہ تو ہیں کچھ سرد لیکن ان کو گرماتے ہیں لوگ
رات اور دن سوچ رہتا یہی رنگیںؔ مجھے
میں تو سب سے راست ہوں کیوں مجھ سے بل کھاتے ہیں لوگ
غزل
میری ایذا میں خوشی جب آپ کی پاتے ہیں لوگ
رنگیں سعادت یار خاں