میری دنیا میں ابھی رقص شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ انداز دگر ہوتا ہے
بھول جاتے ہیں ترے چاہنے والے تجھ کو
اس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے
اب نہ وہ جوش وفا ہے نہ وہ انداز طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
دل میں ارمان تھے کیا عہد بہاراں کے لئے
چاک گل دیکھ کے اب چاک جگر ہوتا ہے
ہم تو ہنستے بھی ہیں جی جان سے جانے کے لئے
تم جو روتے ہو تو آنسو بھی گہر ہوتا ہے
سینکڑوں زخم اسے ملتے ہیں اس دنیا سے
کوئی دل تیرا طلب گار اگر ہوتا ہے
قافلہ لٹتا ہے جس وقت سر راہ گزر
اس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے
انجمؔ سوختہ جاں کو ہے خوشی کی امید
رات میں جیسے کبھی رنگ سحر ہوتا ہے
غزل
میری دنیا میں ابھی رقص شرر ہوتا ہے
انجم اعظمی