EN हिंदी
میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس | شیح شیری
mere hathon mein nahin koi hunar ab ke baras

غزل

میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس

ارشاد ارشی

;

میرے ہاتھوں میں نہیں کوئی ہنر اب کے برس
جانے کس اسم پہ کھلتا ہے یہ در اب کے برس

کچھ تو بھگتا گئے ناکردہ گناہوں کی سزا
زد پہ آندھی کے ہیں کچھ اور شجر اب کے برس

رقص آسیب کا جاری ہے مرے شہروں میں
کس کو درکار ہے کس شخص کا سر اب کے برس

جی جلائے گا یہ آوارہ و بے در ہونا
دل دکھائیں گے یہ مہکے ہوئے گھر اب کے برس

تیری الفت تری چاہت تری شفقت کے طفیل
کتنا برسے گا مرا دیدۂ تر اب کے برس

مجھ کو چھو میرے شب و روز کو روشن کر دے
میرے آنگن میں بھی پل بھر کو ٹھہر اب کے برس

تو نے ہر بار بہت خود کو بگاڑا عرشیؔ
میری گر مان تو جی بھر کے سنور اب کے برس