EN हिंदी
میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن | شیح شیری
mere badan mein thi teri KHushbu-e-pairahan

غزل

میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن

سرشار صدیقی

;

میرے بدن میں تھی تری خوشبوئے پیرہن
شب بھر مرے وجود میں مہکا ترا بدن

ہوں اپنے ہی ہجوم تمنا میں اجنبی
میں اپنے ہی دیار نفس میں جلا وطن

سب پتھروں پہ نام لکھے تھے رفیقوں کے
ہر زخم سر ہے سنگ ملامت پہ خندہ زن

اب دشت بے اماں ہی میں شاید ملے پناہ
گھر کی کھلی فضا میں تو بڑھنے لگی گھٹن

ہر آدمی ہے پیکر فریاد ان دنوں
ہر شخص کے بدن پہ ہے کاغذ کا پیرہن

خوش فہم ہیں کہ صرف روایت پرست ہیں
خوش فکر تھے کہ لے اڑے تاریخ کا کفن

اس دور میں یہاں بھی فلسطین کی طرح
کچھ لوگ بے زمیں ہوئے کچھ لوگ بے وطن

مثل صبا کوئی ادھر آیا ادھر گیا
گھر میں بسی ہوئی ہے مگر بوئے پیرہن

سرشارؔ میں نے عشق کے معنی بدل دیے
اس عاشقی میں پہلے نہ تھا وصل کا چلن