میرا دل ناشاد جو ناشاد رہے گا
عالم دل برباد کا برباد رہے گا
تا دیر جو ہنگامۂ فریاد رہے گا
شک ہے کہ کہیں عالم ایجاد رہے گا
پابندئ اقدار میں آزاد رہے گا
لیکن یہ ترا جور و ستم یاد رہے گا
دل اپنے ہی ہاتھوں سے جو برباد رہے گا
افسانۂ ناکامئ فریاد رہے گا
دل سست تو لب تشنۂ فریاد رہے گا
اب فرحت ناشاد تو ناشاد رہے گا
دل محو چمن ہے تو نگاہوں میں چمن ہے
پابند قفس ہو کے بھی آزاد رہے گا
غیروں کا کرم راس نہ آئے گا نہ آیا
عالم دل برباد کا برباد رہے گا
فرحتؔ ترے نغموں کی وہ شہرت ہے جہاں میں
واللہ ترا رنگ سخن یاد رہے گا
غزل
میرا دل ناشاد جو ناشاد رہے گا
فرحت کانپوری