EN हिंदी
میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے | شیح شیری
melon mein phailte gae paude kapas ke

غزل

میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے

خاقان خاور

;

میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے
محتاج کتنے لوگ ہیں پھر بھی لباس کے

کیا کیا نہ ڈوبتے رہے اوروں کی ذات میں
کیا کیا مظاہرے نہ کیے ہم نے پیاس کے

ہر آدمی کو رنگ سے ہے ان دنوں غرض
قصے پرانے ہو گئے پھولوں کی باس کے

خاورؔ کہیں ہوا کا نہ ہے دھوپ کا گزر
اونچے ہیں سب مکان مرے آس پاس کے