میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے
محتاج کتنے لوگ ہیں پھر بھی لباس کے
کیا کیا نہ ڈوبتے رہے اوروں کی ذات میں
کیا کیا مظاہرے نہ کیے ہم نے پیاس کے
ہر آدمی کو رنگ سے ہے ان دنوں غرض
قصے پرانے ہو گئے پھولوں کی باس کے
خاورؔ کہیں ہوا کا نہ ہے دھوپ کا گزر
اونچے ہیں سب مکان مرے آس پاس کے
غزل
میلوں میں پھیلتے گئے پودے کپاس کے
خاقان خاور