EN हिंदी
مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے | شیح شیری
mehr-e-KHuban KHana-afroz-e-dil-afsurda hai

غزل

مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے

میر محمدی بیدار

;

مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے
شعلہ آب زندگانیٔ چراغ مردہ ہے

مرغ دل تیری نگہ کا ہو چکا اب تو شکار
جا کہاں سکتا ہے یاں سے صید ناوک خوردہ ہے

ہے بہار رنگ و بوۓ تازہ روۓ خصم جاں
سالم آفات حوادث سے گل پژمردہ ہے

جان و ایماں دین و دل جو تھا بساط اپنا دیا
اور کیا چاہے ہے تو مجھ سے جو اب آزردہ ہے

اے شہ اقلیم خوبی تا‌ سر دروازہ آ
نذر کو بیدارؔ تیری جاں بکف آوردہ ہے