مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے
شعلہ آب زندگانیٔ چراغ مردہ ہے
مرغ دل تیری نگہ کا ہو چکا اب تو شکار
جا کہاں سکتا ہے یاں سے صید ناوک خوردہ ہے
ہے بہار رنگ و بوۓ تازہ روۓ خصم جاں
سالم آفات حوادث سے گل پژمردہ ہے
جان و ایماں دین و دل جو تھا بساط اپنا دیا
اور کیا چاہے ہے تو مجھ سے جو اب آزردہ ہے
اے شہ اقلیم خوبی تا سر دروازہ آ
نذر کو بیدارؔ تیری جاں بکف آوردہ ہے
غزل
مہر خوباں خانہ افروز دل افسردہ ہے
میر محمدی بیدار